بس وہی سنتا ہے دُعا سب کی
درگزر کرتا ہے خطا سب کی
وہ جو رازق ہے کُل جہانوں کا
اُس کے قبضے میں ہے غذا سب کی
بس وہی ایک سب کا داتا ہے
جھولیاں بھرتا ہے خدا سب کی
حیّ و قیوم، ذاتِ باری ہے
آئے گی دیکھنا قضا سب کی
جتنے اَمراض ہیں زمانے میں
اس کے ہی پاس ہے دوا سب کی
رب نے پانی کی دی ہمیں نعمت
زندگی ٹھہری ہے ہَوا، سب کی
چاند سورج میں نور کس کا ہے
ربِّ کعبہ سے ہے ضیا سب کی
بس وہی ایسا اِک مصوّر ہے
صورتیں رکھتا ہے جدا سب کی
بندہ طاہرؔ ترا ہے عرض گزار
اے خدا اونچی کر نَوا سب کی