آئے ہر سال محرّم ، مرے اشکوں کی طرح
بجھنے لگتا ہوں نویں شب کے چراغوں کی طرح
میرے سینے سے بھی شعلوں کی لپٹ آتی ہے
شامِ عاشور کے جلتے ہوئے خیموں کی طرح
اب تو احباب بغلگیر ہوا کرتے ہیں
لشکرِ سعد سے آئے ہوئے تیروں کی طرح
وقت دریا پہ ہمیں بھی نہیں جانے دیتا
ہم بھی محصور ہیں صحراؤں میں پیا سوں کی طرح
ظلم نے عشق کو نیزے پہ اٹھا رکھا ہے
عدل ہے، ریت پہ بکھری ہوئی لاشوں کی طرح
کربلاؤں کے مسافر ہیں یقیناً ہم بھی
پیش آتی ہے یہ دنیا بھی یزیدوں کی طرح
زندگی حوصلہء فتح ہمیں کیا دے گی
ہم تو پرچم بھی اٹھاتے ہیں جنازوں کی طرح
غیرتیں بیچ دیا کرتے ہیں بازاروں میں
بستیاں اپنی بسا لیتے ہیں کوفوں کی طرح
تیغ کی طرح نیاموں سے نکلتے ہیں مگر
ٹوٹ بھی جاتے ہیں بزدل کے ارادوں کی طرح
کاش اتنی ہمیں توفیقِ جسارت مل جائے
سر اٹھا سکتے ہوں شبیر کے قدموں کی طرح