تلوار علیؑ

تلوار علیؑ

چنچل چمک کے چرخ پہ چل چل مچل کے چل


بجلی بدن کی باگ بنا، بن بدل کے چل

دھرتی کو مثلِ برگِ گل تر مسل کے چل


اندھی اٹل اجل سے بھی آگے نکل کے چل

اعدا نگاہِ بد سے نہ دیکھیں، سنبھل کے چل


چہرے پہ گردِ آیہء والطین مل کے چل

ہر دشمنِ علیؑ کو سموں سے کچل کے چل


لیکن میں جس کو چھوڑ دوں تو اس سے ٹل کے چل

بیٹھا ہے کبریا کا اسد تیری زین پر


کربل کے آسماں کو اڑا دے زمین پر

شاعر کا نام :- محسن نقوی

کتاب کا نام :- حق ایلیا

دیگر کلام

آباد دما دم آدم کی شہ رگ میں علی تن تن میں علی

نظر بھی مست مست ہے فضا بھی رنگ رنگ ہے

اس نے کہا کہ مجھ کو یہ ”سونا“ پسند ہے

دھڑک رہی ہے زندگی دلوں میں اضطراب ہے

سلطانِ عرب معراج نسب اے ناصرِ ارض و سما مددے

یہ بات ہے تو پھر مرے تیور بھی دیکھنا

تلوار

وہ غدیرِ خم میں اذاں ہوئی وہ سجی خیال کی انجمن

میں سایہء طوبیٰ کی خنک رُت سے ہوں واقف

سن سن مرا پیغام سن