دور آنکھوں سے مگر دل کے قریں رہتے ہیں

دور آنکھوں سے مگر دل کے قریں رہتے ہیں

اچھے پردے میں مرے پردہ نشیں رہتے ہیں


تیری محفل میں ہیں اے یار کہیں رہتے ہیں

دل سے نزدیک ہیں گو پاس نہیں رہتے ہیں


دیر میں اور نہ وہ کعبہ میں مکیں رہتی ہیں

قبئہ دل میں میرے گوشہ نشیں رہتے ہیں


نغمئہ کن فیکون اور صدائے انحد

بن کے بلبل میں وہ آواز حزیں رہتے ہیں


دیکھ کر تم کو اکیلا نہیں میں ہی بیتاب

حضرت دل بھی تو قابو میں نہیں رہتے ہیں


بج رہا ہے یہی ہر تار نفس میں نغمہ

جن کو ہم ڈھونڈ رہے ہیں وہ یہیں رہتے ہیں


ان کا ملنا و نہ ملنا ہے برابر بیدم

اتنے ہی دور ہیں وہ جتنے قریں رہتے ہیں

شاعر کا نام :- بیدم شاہ وارثی

کتاب کا نام :- کلام بیدم

دیگر کلام

آنکھ ملا کے دلربا سچ تو بتا تو کون ہے

یہ بت جو کعبہ دل کو کسی کے ڈھا دیں گے

صدمئہ فرقت سہا جاتا نہیں

جو آب و تا ب پائی شاہ خوباں تیرے دنداں میں

طالب دید ہوں مدت سے تمنائی ہوں

اللہ برائے غوثِ اعظم

اَسیروں کے مشکل کشا غوثِ اعظم

اے کریم ابنِ کریم اے رہنما اے مقتدا

باغ جنت کے ہیں بہرِ مَدح خوانِ اَہلِ بیت

بزمِ محشر منعقد کر میرِ سامانِ جمال