گدا نواز بڑا ہے تمہارا گھر خواجہ
مرا بھی دامن امید آج بھر خواجہ
تمہارے فیض کی چٹکی ہے چاندنی ہر سو
کہاں کہاں نہیں چمکا ترا قمر خواجہ
رہا نہ فیض کرم سے ترے کوئی محروم
کہ تیرا فیض ہے پہنچا نگر نگر خواجہ
حمید الدین کا صدقہ وہ ہم پہ بھی کر دو
جو کی تھی مہر علی پر کبھی نظر خواجہ
یہ فخر ہے کہ ہوں میں بھی گدائے کوئے سیال
ملا ہے نام مجھے تیرے نام پر خواجہ
ستارا اُس کے مقدر کا کیوں نہ روشن ہو
تمہارا جس نے بھی چوما ہے سنگ در خواجہ
ترا کرم ہے جو مجھ کو بنا لیا اپنا
تمہارے گیت میں گاؤں گا عمر بھر خواجہ
کرم ہو مجھ پہ بھی لج پال میرے پیر سیال
کھڑا ہے در پہ تمہارے یہ بے ہنر خواجہ
مرا تو ہے یہی ایماں کوئی کہیں بھی رہے
تو ایک پل بھی نہیں اُس سے بے خبر خواجہ
ہے سر بلندی جو حاصل ترے نیازی کو
جُھکا ہوا ہے ترے در پہ اُس کا سر خواجہ