ہر سو رواں ہوائے خمارِ طرب ہے آج

ہر سو رواں ہوائے خمارِ طرب ہے آج

بابِ قبول وا ہے مرادوں کی شب ہے آج

دل میں خوشی سرور نظر میں عجب ہے آج

ساقی مجھے نہ چھیڑ کہ تیرہ رجب ہے آج

رخ سے نقاب اٹھا کے نویدِ ظہور دے

حاضر ہے دل کا جام، شرابِ طہور دے


وہ مے پلا کہ جس سے طبیعت ہری رہے

نس نس میں انما کی صبوحی بھری رہے

قائم سدا جہاں میں تری دلبری رہے

آنکھوں کے سامنے یہ صراحی دھری رہے

جو بادہ کش ولا کا نشہ کل پہ ٹال دے

للہ اپنی بزم سے اس کو نکال دے


وہ مے پلا کہ جس میں نبوت کی بو ملے

جس کے نشے میں حسن امامت کی خو ملے

آدم کو جس سے کھوئی ہوئی آبرو ملے

میں بھی پیوں تو مجھ کو خدا روبرو ملے

وہ مے کہ جس میں صبحِ ازل کا سرور ہو

وہ مے کہ جس میں آلِ محمدؐ کا نور ہو


وہ مے جو مصطفیٰ نے کساء میں چھپا کے پی

اور فاطمہؑ نے اپنی حیاء میں ملا کے پی

حسنین و مرتضیٰ نے جو محفل سجا کے پی

جبریل نے فلک سے زمیں پر جو آکے پی

جس کا نشہ نجات کا سامان ہو گیا

سلمان پی کے فخرِ سلیمان ہو گیا


عیسیٰ نے پی تو اس کو مسیحائی مل گئی

موسیٰ کو اپنے رب کی شناسائی مل گئی

داؤؑد کو بھی طاقتِ گویائی مل گئی

یعقوبؑ نے جو پی، اسے بینائی مل گئی

وہ مے کہ جس کا کیف دلوں میں اتر گیا

یوسف نے پی تو چاند سا مکھڑا نکھر گیا


قیمت میں خلد سے بھی جو برتر ہے وہ شراب

جس کا نشہ نماز سے بہتر ہے وہ شراب

جو حسنِ خدو خال پیمبرؐ ہے وہ شراب

جو مدعائے قنبر و بوذر ہے وہ شراب

جس کا سرور فکرِ بشر کا غرور ہے

جس کے نشے کی موج سرِ کوہِ طور ہے


وہ مے کہ جس سے دل کو شعورِ بشر ملے

جس کے بس ایک گھونٹ سے جنت میں گھر ملے

جس کے نشے میں شہر نبوت کا دَر ملے

جس کے سبب دِلوں کا دُعا کو اثر ملے

اک رند کائنات میں بیباک ہو گیا

بہلول پی کے صاحبِ ادراک ہوگیا


وہ مے پلا کہ ٹوٹ کے جس پر ملک پڑیں

جس کے نشے کے رنگ اڑیں عرش تک پڑیں

رندوں پہ اولیاء کے زمانے کو شک پڑیں

آئے منافقوں میں تو ساغر چھلک پڑیں

کنکر پہ جس کی چھینٹ بھی پڑ جائے دُر کرے

وہ مے جو عاصیوں کو بھی اک پل میں حر کرے


جس کا سرور ضامنِ جنت ہے وہ شراب

جو واقفِ مزاجِ شریعت ہے وہ شراب

جو رمز ” کل کفا“ کی حقیقت ہے وہ شراب

جس کا خمار اجرِ رسالت ہے وہ شراب

ایسی پلا کہ سارا جہاں ڈولنے لگے

نوکِ سناں پہ جس کا نشہ بولنے لگے


جس کی نظیر مل نہ سکے شش جہات میں

تیرے سوا کہیں نہ ملے کائنات میں

بھر دے ابد کا رنگ بشر کی حیات میں

وہ مے جو آفتاب اگلتی ہے رات میں

وہ مے جو ہے غلافِ حرم میں چھنی ہوئی

جو عرش پر ہے دستِ خدا سے بنی ہوئی


رِندوں کو آج ضد ہے تری دلبری کھلے

رازِ جنون و غایتِ شعلہ سری کھلے

یہ کیا کہ مے کدے کا فسوں سرسری کھلے

اک در نہ کھول، آج تو بارہ دری کھلے

تلچھٹ نہ دے کہ رنگ یہ خلد و عدن کے ہیں

ادنیٰ سے ہیں غلام مگر پنجتنؑ کے ہیں


میں چاہتا ہوں آج نیا اہتمام ہو

یٰسین کی شراب ہو طٰہٰ کا جام ہو

پھوٹے سحر دلوں میں تو آنکھوں میں شام ہو

ہر رند کے لبوں پہ خدا کا کلام ہو

ہر دل سے آج بغض کا کانٹا نکال دے

بخ بخ کرے کوئی تو جہنم میں ڈال دے


ساغر میں ہل اتیٰ کی کرن گھول کر پلا

سر پر لوائے حمدِ خدا کھول کر پلا

چپ چپ سا کیوں ہے آج تو ہنس بول کر پلا

رندوں کا ظرف پوری طرح تول کر پلا

ساغر میں آج اتنی مقدس شراب ہو

پی لیں گناہگار تو حج کا ثواب ہو


ساغر اٹھا کہ چھائی گھٹا جھوم جھوم کر

آئی ہوا نجف کے دریچوں کو چوم کر

ساقی حریمِ دل میں منور نجوم کر

رندوں کو واقفِ درِ بابِ علوم کر

ہم کو پلا وہی جو ولا کی شراب ہو

کم ظرف بادہ خوار کا خانہ خراب ہو


کھول ایسا مے کدہ جو حرم سے بھی کم نہ ہو

جس کی حدوں پہ بندشِ لوح و قلم نہ ہو

جس میں منافقت کا فسوں محترم نہ ہو

ساغر تراب کا ہو کوئی جامِ جم نہ ہو

ہمراہ تو رہے تو کوئی رنج و غم نہیں

ورنہ ترے فقیر سکندر سے کم نہیں


ساقی تو مل گیا تو غمِ جاں کی رت ٹلی

غنچے نکھر گئے ہیں کھلی ہے کلی کلی

مہکی ہوئی ہے شہرِ تصور کی ہر گلی

وہ دیکھ سج رہا ہے زچہ خانہء علی

مصروفِ اہتمام ذبیح و خلیل ہیں

جاروب کش کے روپ میں وہ جبرئیل ہیں


حوروں کے گیسوؤں سے مصلے بنے ہوئے

پھر ان پہ کہکشاں کے ستارے چنے ہوئے

موجِ درود میں وہ ملک سر دھنے ہوئے

پہلے نہیں یہ گیت کسی کے سنے ہوئے

رتبہ ملا وہ محفلِ سدرہ جبین کو

جھک جھک کے آسمان نے دیکھا زمین کو


آدم بچھا رہا ہے دعاؤں کی چاندنی

ایوب اپنے صبر سے کرتا ہے روشنی

ہے آبدار نوح سا انسان کا نجی

آیا ہے خضر ساتھ لیے خمسِ زندگی

یعقوب بھی ہے آنکھ کی مستی لیے ہوئے

یوسف ہے ساتھ مشعلِ ہستی لیے ہوئے


ہر سو ردائے ابر کرم ہے تنی ہوئی

ذروں کی آفتابِ فلک سے ٹھنی ہوئی

شبنم برس رہی ہے شفق میں چھنی ہوئی

مکہ کی سرزمیں ہے معلیٰ بنی ہوئی

آتی ہے کون دیکھنے اس اہتمام کو

جھکنے لگی ہیں مریم و حوا سلام کو


آئے ہیں بہرِ دین سوا لاکھ انبیاء

اول ابو البشر ہیں تو آخر ہیں مصطفیٰ

اک سمت انبیاء ہیں تو اک سمت اولیاء

دونوں کے درمیان ہے عمراںؑ کا قافلہ

بلقیس اک طرف ہو، سلیماں خیال کر

بنتِ اسد چلی ہے ردا کو سنبھال کر


وہ انبیاء کا قافلہ اک دم ٹھہر گیا

ہر سو ہے شورِ سلمہا وردِ مرحبا

سب سے الگ کھڑے ہیں وہ سردارِ انبیاء

بنتِ اسد چلی ہے سوئے خانہء خدا

ساعت یہی ہے شاہدِ حق کے شہود کی

ذروں سے آ رہی ہے صدائیں درود کی


بنتِ اسد چلی یہ صدائیں لیے ہوئے

ہونٹوں پہ باوقار دعائیں لیے ہوئے

آنکھوں میں اوجِ حق کی رضائیں لیے ہوئے

قدموں میں انبیاء کی ادائیں لیے ہوئے

چہرے پہ عکسِ موجِ ادب کا سرور ہے

پہلو میں ان کی پہلی امامت کا نور ہے


لیکن درِ حرم تو مقفل ہے اس گھڑی

بنتِ اسد یہ دیکھ کے واپس پلٹ پڑی

نازل ہوئی فلک سے وہ الہام کی لڑی

آئی صدا” نہ جا گلِ عصمت کی پنکھڑی “

دیوار در بنے کہ زمانے میں دھوم ہو

ظاہر کمالِ مادرِ بابِ علوم ہو


ساقی نہ چھیڑ ہے یہی آغازِ امتحاں

دھڑکن زمیں کی چپ ہے تو ساکت ہے آسماں

خاموش اے قیامتِ ہنگامہء جہاں

کعبے میں جارہی ہے وہ اک بت شکن کی ماں

قرآنِ بندگی کی تلاوت کا وقت ہے

جاگو طلوعِ شمسِ امامت کا وقت ہے


جاگ اے ضمیر جاگ کہ جاگے ہیں تیرے بھاگ

تارِ نفس کو چھیڑ کے چھیڑا ہوا نے راگ

خوش ہو گئی زمیں کہ اسے مل گیا سہاگ

ساقی شراب لا کہ بجھے تشنگی کی آگ

ظلماتِ دو جہاں کی ردا چاک ہو گئی

نازِل ہوئے علی تو فضا پاک ہو گئی


بنتِ اسد کی گود سے ابھرا اک آفتاب

ہاں اے تراب تجھ کو مبارک ہو بو تراب

کوثر‘ چھلک ذرا، ترا ساقی ہے لاجواب

بطحا کی سرزمین سلامت یہ انقلاب

عمران جھومتے ہیں کہ زہرہ جبیں تو ہے

اب خوش ہیں مصطفیٰ کہ کوئی جانشیں تو ہے


آدؔم ہے خوش کہ اس کی دعا کو اثر ملا

عیسیٰ ہے رقص میں کہ کوئی چارہ گر ملا

ایوب کو بھی قبر کا شیریں ثمر ملا

یوسف کو اپنے حسن کا پیغام بر ملا

مسرور ہے فضا کوئی محشر بپا نہ ہو

سہمے ہوئے ہیں بت کہ حقیقی خدا نہ ہو


ترتیبِ خال و خد سے نمایاں ہے برتری

پیکر کے بانکپن پہ نچھاور دلاوری

چہرے پہ وہ سکون کہ نازاں پیمبری

آنکھوں میں وہ غرور کہ حیراں ہے داوری

آئی ہے ایک بات ہی اب تک قیاس میں

خوشبو ہے داوری کی بشر کے لباس میں


ساقی شراب لا کہ طبیعت مچل گئی

لغزش مرے شعور کی مستی میں ڈھل گئی

نبضِ قلم بہکنے لگی تھی سنبھل گئی

رنگینیوں کو دیکھ کے نیت بدل گئی

تجھ پر رموزِ رونق ہستی عیاں کروں

کچھ پی کے مدحتِ شہِ دوراں بیاں کروں


مولا علی شعورِ بشر فکرِ ارجمند

ڈالی ہے جس کی سوچ نے افلاک پر کمند

وہ جس کا مرتبہ بنی آدم سے ہے بلند

چھڑکا ہے جس نے موت کے چہرے پہ زہرخند

جو نقطہء عروجِ فروع و اصول تھا

بستر پہ سو گیا تو مکمل رسول تھا


ایسا کریم جس کے کرم کی نہ حد ملے

ایسا علیم علم کو جس سے مدد ملے

ایسا عظیم جس کی ادا میں احد ملے

ایسا سلیم جس میں شعورِ صمد ملے

دنیا و دیں میں جس کو وہ نام و نسب ملا

خالق کی بارگاہ سے حیدر لقب ملا


کشور کشائے فکرِ شجاعت کا بانکپن

صابر، سخی، کریم، رضا جو، وہ بت شکن

نانِ جویں کا ناز قناعت کی انجمن

دل کا سرور جرات و احساس کی پھبن

جس کا وجود قدرتِ حق کی دلیل تھا

جس کا شعور بوسہ گہِ جبرئیل تھا


خیبر کشا، یقین کا پیکر وہ بو تراب

تاریخ کی جبین وہ فتحِ مبیں کا باب

سرچشمہء نجاتِ بشر جس کا اضطراب

جس کے وجود سے ہے رخِ دیں کی آب و تاب

جس کا کرم جہاں کے لیے عام ہو گیا

خطروں کو اوڑھ کر جو سرِ شام سو گیا


وہ جس کے فرقِ ناز پہ کج تھا بقا کا تاج

وہ بوتراب، شمس و قمر سے جو لے خراج

وہ خلق، اقتدار و سخاوت کا امتزاج

جس نے زمیں پہ رہ کے فلک پر کیا تھا راج

سلطانیِ بہشتِ بریں کی نوید لی

اک ضرب سے جہاں کی عبادت خرید لی


وہ دیں کی سلطنت میں شرافت کا تاجدار

وہ مظہرِ جلالِ خداوندِ روزگار

وہ بوریا نشیں وہ شہِ کہکشاں سوار

وہ بندۂ خدا وہ خدائی کا افتخار

جس کے قلم کی نوک بلاغت کی راہ تھی

جس کے علم کی چھاؤں رسالت پناہ تھی


جس نے ہوا کی زد پہ منور کیے چراغ

جس کے یقیں نے توڑ دیئے جہل کے ایاغ

جس نے بہم کیے تھے رموزِ دل و دماغ

وہ پھول جس سے طبعِ رسالت تھی باغ باغ

جس کے لہو سے چہرۂ ہستی نکھر گیا

وہ نقش جو دلوں کی تہوں میں اتر گیا

شاعر کا نام :- محسن نقوی

کتاب کا نام :- حق ایلیا

دیگر کلام

حجابِ خُلق۔۔۔۔۔۔ ۱

حجابِ خُلق۔۔۔۔۲

یہ کون مظلوم ہے کہ جس کی جبیں لہو سے دمک رہی ہے

اگر نادِ علی پڑھنے کی رسم ایجاد ہو جائے

اسرارِ معارف کا گلستاں ابو طالب

فضا معطر، خلا منور، سما ہے مصروفِ کجکلاہی

یہ اولیاء کا غرور سہرا یہ انبیاء کا وقار سہرا

آباد دما دم آدم کی شہ رگ میں علی تن تن میں علی

نظر بھی مست مست ہے فضا بھی رنگ رنگ ہے

اس نے کہا کہ مجھ کو یہ ”سونا“ پسند ہے