کاش مجھ پر ہی مجھے یار کا دھوکا ہو جائے

کاش مجھ پر ہی مجھے یار کا دھوکا ہو جائے

دید کی دید تماشے کا تماشا ہو جائے


دیدہ شوق کہیں راز نہ افشا ہو جائے

دیکھ ایسا نہ ہو اظہار تمنا ہو جائے


آپ ٹھکراتے تو ہیں قبر شهیدان وفا

حشر سے پہلے کہیں حشر نہ برپا ہو جائے


آپ کا جلوہ بھی کیا چیز ہے الله الله

جس کو آجائے نظر وہ بھی تماشا ہو جائے


کم روز قیامت سے شب وصل اس کی

شام ہی سے جسے اندیشۂ فردا ہو جائے


کیا ستم ہے ترے ہوتے ہوئے اے جذبہ دل

میرا چاہا نہ ہوا اور غیر کا چاہا ہو جائے


شرم اس کی ہے کہ کہلاتا ہوں کشتہ تیرا

زندہ عیسیٰ سے ہو جاؤں تو مرنا ہو جائے


میرا ساماں میری بے سرو سامانی ہے

مر بھی جاؤں تو کفن دامن صحرا ہو جائے


دور ہو جائیں جو آنکھوں سے حجابات روئی

پھر تو کچھ دوسری دنیا میری دنیا ہو جائے


اس کی کیا شرم نہ ہو گی تجھے اے شان کرم

تیرا بندہ جو تیرے سامنے رسوا ہو جائے


تو اسے بھول گیا وہ تجھے کیونکر بھولے

کیسے ممکن ہے کہ بیدم بھی کبھی تم سا ہو جائے

شاعر کا نام :- بیدم شاہ وارثی

کتاب کا نام :- کلام بیدم

دیگر کلام

السلام اے مسند آرائے کمال

آج دریا دلی تو اپنی دکھا دے ساقی

فضل خدا کا نام ہے فیضان اولیاء

گلزار محبت کی فضا میرے لئے ہے

جمال حق رخ روشن کی تاب میں دیکھا

جمال میں پیر حق نما کے شبیہ شاہ عرب کو دیکھا

شان کیا وارث کی ہے ادنی کو اعلیٰ کر دیا

اپنی ہستی کا اگر حسن نمایاں ہو جائے

آنکھ ملا کے دلربا سچ تو بتا تو کون ہے

یہ بت جو کعبہ دل کو کسی کے ڈھا دیں گے