کیسے لڑیں گے غم سے، یہ ولولہ ملا ہے
ہم کو حسینیوں سے اک راستہ ملا ہے
کربل میں ابرِ باراں اس بار جو ہوئی ہے
اصغر ترے لہو سے تر بلبلہ ملا ہے
کربل کی ریت پر اک معصوم کی ادا سے
اسلام کی بقا کو پھر لخلخہ ملا ہے
کوڑا بچھائے کوئی، کانٹے چبھوئے کوئی
فخرِ رسل کے گھر سے حرفِ دعا ملا ہے
سلطاں کوئی جو پہنچا آلِ نبی کے در پر
سلطان بھی وہاں کا ادنٰی گدا ملا ہے
حسنین کی دعا سے محمود پر شفاعت
کا سب کو مصطفٰی سے اک آسرا ملا ہے
ہم کو عزیز تر ہے مغموم کی صدائیں
بخشش کا دلربا اک جو سلسلہ ملا ہے
گاتا رہوں گا تا دم چاہے یہ جاں بھی جائے
فردوس تک جو مدحت کا زم زمہ ملا ہے
ابنِ علی ولی سے قائم تو رابطہ رکھ
تجھ کو محبتوں کا اُن سے صلہ ملا ہے