پانی کی جو اک بوند کو ترسا لبِ دریا
وہ غیر نہ تھا ، سبطِ نبیؐ تھا لبِ دریا
رنگین رہا دشت ، شہیدوں کے لہو سے
بہتا ہی رہا خون کا دریا ، لبِ دریا
ہے ماتمِ شبّیر کی اک زندہ شہادت
موجوں کا یہ سَر پیٹتے اُٹھنا ، لبِ دریا
موجوں میں تلاطُم ، تو ببولوں میں قیامت
پیاسوں کا ہے شیون سرِ صحرا ، لبِ دریا
اِس سوچ نے پہروں دلِ مضطر کو رُلایا
وہ بندشِ آب اور وہ پہرا ، لبِ دریا
شکوہ نہ شہیدوں کو رہے تشنہ لبی کا
یُوں موت کے گھاٹ اُن کو اتارا لبِ دریا
امواجِ ستم کھیل رہی تھیں سرِ بالیں
عباس پڑے تھے گُہَر آسا ، لبِ دریا
یُوں خون رواں تھا علی اصغر کے گلے سے
جیسے ہو لہو کا کوئی دھارا ، لبِ دریا
اے اہلِ جفا ! پیاس سے پیاسوں کی نہ کھیلو
پہنچیں نہ کہیں سیّدہ زہرا، لبِ دریا
شاہِ شُہدا کیسے اُدھر پاؤں اُٹھاتے
چل کر کہیں آیا کوئی دریا ، لبِ دریا
تھا مرتبہء عترتِ زہرا کے منافی
دو بوند کے چکّر میں اُلجھنا، لبِ دریا
گر زحمتِ یک گام وہ کر لیتے گوارا
خود بڑھ کے قدم چُوم نہ لیتا ، لبِ دریا
جُھکنا سرِ شبّیر کی فطرت میں نہیں تھا
جھُک جاتے تو کچھ دُور نہیں تھا ، لبِ دریا
عباس میں حیدر کا لہو دوڑ رہا تھا
دُشمن سے لڑے وہ تنِ تنہا ، لبِ دریا
جب ابنِ علی جھُوم کے پہنچے سرِ مقتل
اک شور اُٹھا صلِّ علی ٰ کا، لبِ دریا
پیوستہ قدم چوُمنے اُٹھتی رہیں لہریں
دیکھا جو محمدؐ کا سراپا ، لبِ دریا
ہر منظرِ فطرت کو وہا ں پاسِ ادب تھا
موجیں ہی نہ تھیں ناصیہ فرسا، لبِ دریا
حُرّیتِ اظہار کا تابندہ نشاں ہے
عباس ترا نقشِ کفِ پا ، لبِ دریا
اے قاسم گُل رو شبِ عاشور کے دُولہا
گاتی رہیں لہریں تِرا سہرا ، لبِ دریا
موجوں کے مدو جزر نے لیں اُس کی بلائیں
چہرا تھا کہ اک چاند کا ٹکرا ، لبِ دریا
سب کہتے ، نصیؔر اپنے مقدّر کا دھنی ہے
شبّیر کے قدموں میں جو ہوتا ، لبِ دریا