آؤ تسبیحِ صبح و شام کریں
یوں غمِ زندگی تمام کریں
ہر طرف جان و دل بِچھادیجئے
کیا خبر ہو کہاں قیام کریں
چشمِ تر سوزِ آرزو لے کر
اُن کے جلوے کا انتظام کریں
آج وہ پوچھنے تو آئے ہیں
زندگی نظرِ اقتدام کریں
اُن کا آنا تھا کچھ خبر نہ رہی
آج سجدہ کریں قیام کریں
اُن کے کوچے میں سر کے بل جا کر
آؤ تحفے درِ حرام کریں
تیری طلعت ماہِ ربیع میں ہے
کیسے وصفِ ماہِ صیام کریں
جل اُٹھے گا یہ عالمِ ہستی
حُسن جب بھی وہ بے نیام کریں
اُن کے جلوے زمیں کے ذرّوں کو
منبعِ نورِ ثم ثمام کریں
جن کو حُسنِ ازل میں ڈھلنا ہو
اپنے ہونے کا انعدام کریں
پھر من و تو کی الجھنوں کے لیے
عارفو کیوں نزول ِتام کریں
کوئی بجلی جلا ہی دے شاہد ؔ
آؤ ہم طُور پر خرام کریں
کیا عجب ہے وہ مہرباں ہو کر
کوئی شب تیرے نام قیام کریں
تو ہمیں یاد بھی کرے نہ کرے
ہم تیرا ذِکر صبح وشام کریں
رازِ ہستی کُھلے نہیں طاہر
مطلع ہی مقطع ِ کلام کریں