اگر وہ دیکھ لیں مجھ کو جو اک نظر بھر کے
بدل ہی جائیں مقدر مجھ ایسے کمتر کے
ہجوم نوری فرشتوں کا ہوگا نادیدہ
قدم اٹھاتا ہوں کوئے نبی میں ڈر ڈر کے
نظر پھرے گی کسی اور سمت کیوں اس کی
ملا ہو آپ کا دیدار جس کو مر مر کے
اسی کے دم سے بہاریں ہیں صحنِ گلشن میں
چمن پہ لاکھ ہیں احسان اس گلِ تر کے
ترے دیار میں ہم تشنہ کام آئے ہیں
عطا ہوں جام ہمیں سلسبیل و کوثر کے
نگاہ چوم رہی تھی سنہری جالی کو
قرار ملتا تھا آنکھوں کو یہ عمل کر کے
ملا ہے ان کی اجازت سے یہ حسیں منظر
درِ رسول سے پھر کیوں مری نظر سر کے