آمادہ دل ہے کوچۂ سرکار کی طرف
نظریں ٹکی ہیں گنبد و مینار کی طرف
جبریل دنگ رہ گئے، جب کہ نظر پڑی
شاہِ دنیٰ کی برق سی رفتار کی طرف
سن کر نویدِ جاں فزا، یعنی انالھا
دوڑیں گے سارے احمدِ مختار کی طرف
اخلاق بے مثال ہے کس کی مجال ہے
انگلی اُٹھائے آپ کے کردار کی طرف
ابرِ کرم سے داغِ معاصی کو دھوئیے
چشمِ کرمِ حضور ہو بدکار کی طرف
افلاس کا ہوں مارا ہوا شاہِ بحر و بر
چشمِ کرم ہو مفلس و نادار کی طرف
ٹھکرا کے سارے عہدہ و منصب کو جاہ کو
میں آگیا ہوں طیبہ کے سرکار کی طرف
خیرات لینے جاتے ہیں شاہ و گدا سبھی
سلطانِ کائنات کے دربار کی طرف
محشر میں بخشواؤگے احمدؔ کو بالیقیں
کچھ غم نہیں جو تم ہو گنہ گار کی طرف