اے کاش وہ اشعار پہنچ جائیں وہیں پر
میں نے جو کہے گنبدِ خضرا کے مکیں پر
کہنے کو تو بیٹھے ہیں مدینے کی زمیں پر
یوں لگتا ہے جیسے ہیں کہیں چرخِ بریں پر
انکار نہیں ہے تِری جنت سے اے رضواں
جو رشکِ جناں ہے وہ مدینہ ہے زمیں پر
اس رات درِ گنبدِ بے در بھی کُھلا تھا
دروازے کُھلے سینکڑوں اس ماہ جبیں پر
ساتھ اپنے لئے شعبۂِ انوار فلک بھی
قربان ہوا جاتا ہے طیبہ کی زمیں پر
افلاک سے انوار برستے رہے پیہم
سرکار کے دربار میں اک فرش نشیں پر
کیوں چھوڑکے طیبہ کے نظارے چلے آئے
رہ جاتے شفیقؔ آپ اسی پاک زمیں پر