بیک نگاہ و جلوہ بہم نظر آیا
درِ حبیبؐ سے بامِ حرم نظر آیا
زہے نصیب کہ اکثر مُجھے کھُلی آنکھوں
دیارِ پاکِ شہِؐ محترم نظر آیا
اُنہیںؐ کے در پہ پہنچ کر کرم کی بھیک مِلی
اُنہیںؐ کے قدموں میں اپنا بھرم نظر آیا
نظر جُھکائے میں فکرِ مآل میں گم تھا
نظر اُٹھی تو وہ بابِ کرم نظر آیا
بنا لیا ہے اُسے زندگی نے اپنا شعار
جہاں کہیں بھی وہ نقشِ قدم نظر آیا
نہ جانے کون سی منزل تھی شب مرے آقاؐ
کہ قلب آپؐ کے زیرِ قدم نظر آیا
حنیفؔ روضۂ اقدس کی جالیوں کے قریب
خدا کا نُور خدا کی قسم نظر آیا