چمکتی ہے میری جبیں تیرے غم سے
کوئی غم نہیں ہے حسیں تیرے غم سے
یہ وسعت کہاں اس کی آب و ہوا میں
بہت کم ہے خُلدِ بریں تیرے غم سے
یہی ہے خدا کو بھی منظور شاید
تڑپتا رہوں میں یہیں تیرے غم سے
بگڑتی چلی جاتی ہے دل کی حالت
پگھل ہی نہ جائے کہیں تیرے غم سے
اُسے کیا خبر اِس میں لذّت ہے کتنی
جو انسان واقف نہیں تیرے غم سے
چراغوں کی صورت چمکنے لگی ہے
مرے چار جانب زمیں تیرے غم سے
لگے چوٹ تو اور بڑھتا ہے ایماں
نکھرتا ہے میرا یقیں تیرے غم سے
خدا اِن کو رکھے ہمیشہ سلامت
وہ شمعیں جو روشن ہوئیں تیرے غم سے
اچانک برسنے لگیں میری آنکھیں
کوئی تار ٹُوٹا کہیں تیرے غم سے