چاپ قدموں کی سنائی دے پسِ لولاک بھی
ہمسفر جبریلؑ کی شہرِ نبی کی خاک بھی
مہر و مَہ لیتے ہیں بوسے آپ کی دستار کے
عرش سے بڑھ کر مقدس آپ کی پوشاک بھی
صبح کی پہلی کرن آ کر جگاتی ہے انہیں
مجھ سے بہتر ہیں مدینے کے خس و خاشاک بھی
دے نہیں پائے شب معراج کا اب تک جواب
سرنگوں گُم صُم کھڑے ہیں سوچ میں افلاک بھی
میں اکیلا تو نہ تھا اُس روضۂ اطہر کے پاس
بارِ عصیاں ساتھ تھا اور دیدۂ نمناک بھی
اُن کے بوسیدہ لباسوں پر نہ جا انجؔم وہاں
قُدسیوں کی شان رکھتے ہیں گریباں چاک بھی