درد مندوں کے لیے بن کے شفا آتی ہے
روضۂ پاک کو چھو کر جو صبا آتی ہے
لڑکھڑاتے ہیں قدم جس گھڑی احمدؔ اپنے
”ربِّ سِلّم“ کی اسی وقت صدا آتی ہے
بحرِ سائل کا ہے سائل یہ طفیل احمدؔ بھی
سب کے دامن میں شہا تیری عطا آتی ہے
جھولیاں بھرتے ہیں سلطانِ دو عالم سب کی
ان کو ”نا“ کہنے میں گویا کہ حیا آتی ہے
بقعہء نور بنا دیتی ہے صحنِ دل کو
ان کے روضے سے جو چھن چھن کے ضیا آتی ہے