دیں اذنِ حضوری مرے اشکوں کی صدا ہے
مقبول ہو آقاؐ یہ مرے دل کی دعا ہے
دامن ہے اٹا گردِ الم سے مرا، سرکارؐ!
بس بارشِ الطاف مجھے ردِ بلا ہے
کیوں جائے درِ غیر پہ یہ تیرا نمک خوار
دامن تری خیرات سے جب اِس کا بھرا ہے
بے کس کوئی نرغے میں جب آلام کے آیا
فوراً شہ والاؐ کا کرم اُس پہ ہوا ہے
’’دل، خوں شدۂ کش مکشِ حسرتِ دیدار‘‘
آنکھوں میں بھی ہر طور تمنائے لقا ہے
لپکا سرِ فاراں جو ترےؐ نور کا جلوہ
ظلمت کدہ بنیاد پہ اپنی ہی گرا ہے
محبوبؐ کی بیداریِ شب دیکھ کے اللہ
تزئیدِ عبادت کی گرہ کھول رہا ہے
حد درجہ رہِ دین میں تقویٰ کا ہے اکرام
تقویٰ کی بنا صلِّ علیٰ صلِّ علیٰ ہے
بیمارِ فراقِ درِ محبوبِؐ خدا کو
اکسیر فقط شہرِ مدینہ کی ہوا ہے
لذّت کشِ اثمارِ جناں ہے وہ خوشا بخت
اس در پہ حضوری کا مزہ جس نے لیا ہے
لاریب ہے صد رشکِ فلک گنبدِ خضریٰ
دستار کے مانند جو روضے پہ سجا ہے
جب انؐ کو پکاروں میں مصیبت میں سرِحشر
اے کاش کہیں آپؐ کہ سائل یہ مرا ہے
ہر تلخیِ محشر ہوئی سر سے مرے کافور
میزان پہ بھاری جو درود انؐ کا ہوا ہے
مہر مہ و انجم ہی نہیں آپؐ سے روشن
انوارِ محمدؐ کی دلوں میں بھی ضیا ہے
ہر نام مرے شاہؐ کا ہے مصدرِ توصیف
کیا حامد و محمود و محمدؐ کی ضیا ہے
مرہونِ کرم جس کے ہیں اکنافِ دو عالم
’’مدحت کا قرینہ بھی اسی در کی عطا ہے‘‘
ہے منتظرِ آمدِ مہمانِ دنیٰ وہ
ہر شب جو فلک چاند ستاروں سے سجا ہے
اک عالمِ رحمت میں دیا رحمتِ عالم
واللہ! غنی خالقِ محبوبِ خدا ہے
بوذرؓ ہوں کہ عمارؓ، وہ مصعبؓ ہوں کہ عثمانؓ
ہے کون سا دریا جو سمندر نہ ہوا ہے
بے چارگیِ اہلِ فراقِ درِ اقدس
ہر لمحہ نئی صورتِ سکراتِ قضا ہے
مدحِ شہِؐ خوباں پئے انجاحِ الم لکھ
نسخہ یہی اکسیر تجھے بہرِ شفا ہے
جبریلؑ کا شہپر ہے تخیّل کو میسّر
افلاک کا ہم سر اسے مدحت نے کیا ہے
قرطاس پہ ہیں بارشِ گلہائے عقیدت
وصّاف کی نظروں میں مدینے کی فضا ہے
سائنس اسے تقسیم ہے گو چار میں کرتی
دل پنج تنی روزِ ازل ہی سے مرا ہے
آقاؐ کی محبت کی ہے تاکید نفس کو
دھڑکن کو سدا صلِّ علیٰ حکمِ خدا ہے
تشکیر کا لمحہ ہے ترے واسطے طاہرؔ
خاصہ جو تجھے مدحِ محمدؐ کا ملا ہے
طاہرؔ یہ عطائے شہِؐ کونین ہے مجھ پر
لب پر جو مرے صلِّ علیٰ صلِّ علیٰ ہے