دیر جتنی اشکِ خوں سے آنکھ تر ہونے میں ہے
اس سے کم طیبہ کی سمت اذنِ سفر ہونے میں ہے
کر لیا ہے جب درودی رتجگے کا اہتمام
دیر پھر کیسی شبِ غم کی سَحر ہونے میں ہے
دھیان رہتا ہے تو صبح و شام رحمت کی طرف
لذت وراحت عجب بے بال و پر ہونے میں ہے
تپتےصحرا میں ہو میری جاں کو حاصل کس طرح
نم جو درکار اس شجر کے بارور ہونے میں ہے
جانے کیا احوالِ امّت کے بدلنے میں ہے دیر
جانے کیا حائل دعا کے پُر اثر ہونے میں ہے
کب بہار آئے گی تائبؔ آرزو کے دشت میں
کیا خبر کیا دیر رحمت کی نظر ہونے میں ہے