دل کو اُن سے خدا جُدا نہ کرے

دل کو اُن سے خدا جُدا نہ کرے

بے کسی لوٹ لے خدا نہ کرے


اس میں رَوضہ کا سجدہ ہو کہ طواف

ہوش میں جو نہ ہو وہ کیا نہ کرے


یہ وہی ہیں کہ بخش دیتے ہیں

کون ان جرموں پر سزا نہ کرے


سب طبیبوں نے دے دیا ہے جواب

آہ عیسیٰ اگر دوا نہ کرے


دل کہاں لے چلا حرم سے مجھے

ارے تیرا بُرا خدا نہ کرے


عذر اُمید عفو گر نہ سنیں

رُوسیاہ اور کیا بہانہ کرے


دل میں روشن ہے شمعِ عشقِ حضور

کاش جوشِ ہوس ہوا نہ کرے


حشر میں ہم بھی سیر دیکھیں گے

منکِر آج ان سے اِلتجا نہ کرے


ضُعف مانا مگر یہ ظالم دل

اُن کے رستے میں تو تھکا نہ کرے


جب تِری خُو ہے سب کا جی رکھنا

وُہی اچھّا جو دِل بُرا نہ کرے


دِل سے اِک ذوقِ مے کا طالب ہوں

کون کہتا ہے اتقا نہ کرے


لے رضاؔ سب چلے مدینے کو

میں نہ جاؤں ارے خدا نہ کرے

شاعر کا نام :- احمد رضا خان بریلوی

کتاب کا نام :- حدائقِ بخشش

دیگر کلام

پیشِ حق مژدہ شفاعت کا سُناتے جائیں گے

پھر اُٹھا وَلولۂ یادِ مُغِیلانِ عرب

تمہارے ذَرِّے کے پر تو ستارہائے فلک

چمنِ طیبہ میں سُنبل جو سنوارے گیسو

حاجیو! آؤ شہنشاہ کا رَوضہ دیکھو

ذرّے جھڑ کر تری پیزاروں کے

رونقِ بزمِ جہاں ہیں عاشقانِ سوختہ

راہ پُرخار ہے کیا ہونا ہے

مکاں عرش اُن کا فلک فرش اُن کا

زمین و زماں تمہارے لئے مَکِین و مکاں تمہارے لئے