فلسفی! تجھ کو عبث دُھن ہے اُسے پانے کی

فلسفی! تجھ کو عبث دُھن ہے اُسے پانے کی

ہو چکا جب کہ تری عقل کا سُلطاں، معزول


دیدۂ عقل سے دیکھ اُس کو نہ مردِ ناداں!

کہ دلائل سے الجھنا ہے خِرد کا معمول


عقل تو اپنی حقیقت سے بھی ناواقف ہے

کیا سمجھ پائے اُسے، جو کہ ہے مافوقِ عقول


داعیٔ مشربِ توحید ذرا غور سے سُن

شاید آجائے تجھے راس یہ حرفِ معقول


صرف توحید کا شیطان بھی قائل ہے، مگر

شرطِ ایماں ہے محمدؐ کی اطاعت، یہ نہ بھُول


امرِ لازم ہے یہ ہر مردِ مسلماں کے لیے

عزّتِ آلؓ نبی ؐ، حُرمتِ اَتباعِ رسوؐل


صاف باطن ہے تو بھیج اُن پہ دُرود اور سلام

ورنہ میں چھیڑوں گا پھر ذکرِ اُبِّی ابنِ سُلول


گرمئی عشقِ بلالِ ؓ حَبَشی پیدا کر

کہ بنے سینہ ترا مہبط انوارِ رسوؐل

شاعر کا نام :- سید نصیرالدیں نصیر

کتاب کا نام :- دیں ہمہ اوست

دیگر کلام

شب کو بھی جہاں لاکھوں خورشید نکلتے ہیں

محمد مصطفٰی آئے بہاروں پر بہار آئی

کرم آج بالائے بام آ گیا ہے

نہ کوئی آپ جیسا ہے نہ کوئی آپ جیسا تھا

زندگی دا مزا آوے سرکار دے بوہے تے

نہیں ہے کوئی دنیا میں ہمارا یا رسول اللہ

یا نبی نسخہ تسخیر کو میں جان گیا

عام ہیں آج بھی ان کے جلوے ، ہر کوئی دیکھ سکتا نہیں ہیں

الہٰی روضۂ خیرالبشر پر میں اگر جاؤں

پکارو یارسول اللہ یاحبیب اللہ