فرقت کی داستان اُڑا لے گئی ہوا
کتنی ہے مہربان اُڑا لے گئی ہوا
مُدّت سے جو بسے ہوئے قلب و نظر میں تھے
بطحا ، مرے گمان اُڑا لے گئی ہوا
خالی بدن میں رکھتے ہیں بطحا کی آرزو
پہلے ہی جن کی جان اُڑا لے گئی ہوا
پہلے سے ہی مدینہ تھا من میں بسا ہوا
دل یوں ہے کامران اُڑا لے گئی ہوا
عصیان کی طرف مرے اُٹھے تھے جو قدم
اُن کے تو سب نشان اُڑا لے گئی ہوا
کشتی کو ناخدا نے کیا ساحل آشنا
گو اِس کے بادبان اُڑا لے گئی ہوا
چاروں طرف مدینے میں مہکار تھی جلیل
کیسے کروں بیان اُڑا لے گئی ہوا