غم سینے میں اے سیّدِ ابرار بہت ہے
فرقت میں تری بندہ یہ بیمار بہت ہے
اک پل میں سرِ عرش گئے، آئے محمدﷺ
حیراں ہے خرد اس پہ کہ رفتار بہت ہے
رتبہ ہے ترا بالا، ترا وصف ہے اعلیٰ
اونچا ترے اخلاق کا معیار بہت ہے
للہ مجھے دیجیے اب غم سے رہائی
غم سینے میں اے مونس و غم خوار بہت ہے
اس گلشنِ ہستی یہ خزاں کا ہے تسلّط
پامالِ خزاں دل مرا سرکار بہت ہے
بھر دو مرے دامن کو مرادوں سے اے داتا
دنیا میں سخی آپ کا دربار بہت ہے
احمدؔ کو عطا سوزِ دروں کیجیے آقا
یہ آپ کی الفت کا طلب گار بہت ہے