حبیب کبریا کے دہر میں تشریف لانے پر
اندھیرے چھٹ گئے انوار برسے ہیں زمانے پر
شعور آگہی بخشا ہے جن کی ذات والا نے
بتان دہر اوندھے منہ گرے ہیں ان کے آنے پر
میں اکثر سوچتا ہوں اس گھڑی کیا کیفیت ہوگی
اچانک جب میں پہنچوں گا نبی کے آستانے پر
پرندے صبح دم صل علی کا ورد کرتے ہیں
تو کرنیں نور برساتی ہیں ان کے آشیانے پر
نظر کو ماورائے دولت کونین پاتا ہوں
جھکا ہے جب سے دل مختار کل کے آستانے پر
مرے گھر میں قدم رنجہ ہوئے محبوب سبحانی
یہ نعمت میں نے پائی کعبہ دل کو سجانے پر
حمید! الطاف کے گوہر مجھے سرکار نے بخشے
حدیث درد و غم اشکوں کے لہجے میں سنانے پر