ہم بھی درِ رسول پہ جاتے تو بات تھی
دل کا اُنہی کو حال سُناتے تو بات تھی
پی کر نبی کے عشق کا جامِ طہور ہم
تشنہ لبی یہ کاش ! بُجھاتے تو بات تھی
اِذنِ قیامِ شہرِ مدینہ کے بعد ہم
مسکن وہ ارضِ پاک بناتے تو بات تھی
دیدار کا اے کاش ! وہ اپنے فقیر کو
سپنوں میں ایک جام پلاتے تو بات تھی
اُسوہ مرے حضور کا، اے کاش ! اُمّتی
اِک مقصدِ حیات بناتے تو بات تھی
اولاد کو جو سرورِ کون و مکان کا
کردار و طرزِ زیست سکھاتے تو بات تھی
ہم پر کرم حضور کا ، کتنا ہوا جلیل
ہر شخص کو یہ بات بتاتے تو بات تھی