ہر فصل میں پایا گلِ صحرا تروتازہ
جب دیکھا لگا قبہ خضرا تروتازہ
رہتا ہے شب و روز ہر اک منظرِ طیبہ
آراستہ پیراستہ اجلا تروتازہ
اندازِ حیات ان کا ہے قرآن سراپا
ہر آن ہے وہ جلوہ زیبا تروتازہ
انوار بداماں ہے بہر لحظہ وہ اسوہ
وہ گلشنِ رحمت ہے ہمیشہ تروتازہ
مفہوم کی خوشبو سے ہے مہکا ہوا ہر لفظ
ہے آ ج بھی ان کا لب و لہجہ تروتازہ
ہو جس کی اساس ان کی ولا ، ان کا تعلق
ہر دور میں رہتا ہے وہ جذبہ تروتازہ
میں لاکھ گرفتہ دل و آشفتہ نظر ہوں
رہتی ہے مگر ان کی تمنا تروتازہ
ہونٹوں پر ندا نعت کی ہے منزلِ شب میں
یوں رکھتا ہوں سامان سحر کا تروتازہ
موسم کی تمازت سے ہراساں نہیں تائب
سایے میں ہوں رحمت کے شگفتہ ، تروتازہ