حضور! کیا منہ ہے اب ہمارا جو پاس آئیں
وہ منہ دکھانے کے ہو جو قابل کہاں سے لائیں
وہ چہرہ جس پر ہو آپ کا غم
جسے حوادث نہ کر سکیں کم
وہ سر جو کٹ جائے پر نہ ہو خم
وہ آنکھ جس میں ہو عشق کا نم
وہ زخم جس کا ہیں آپ مرہم
جبیں وہ ایسی ، فرشتوں جیسی
کہ فخر سے جس کو ہم جھکائیں
جب آپ کے آستاں پہ آئیں
یہ سب مگر اب کہاں سے لائیں
یہ جنس بازار میں نہیں ہے
بھرم تھا جس سے جہاں میں اپنا
وہ بات کردار میں نہیں ہے
حضور ! ہم کیسے پاس آئیں
وہ منہ دکھانے کے ہو جو قابل ، کہاں سے لائیں
ذرا سی لغزش پہ شر مساری
چراغ اس کے
وہ آپ سے عہدِ جاں نثاری
چراغ اس کے
جو نسبتیں آپ سے تھیں پیاری
چراغ اس کے
عروج کی داستان ساری
چراغ اس کے
اب ایک کر کر کے بجھ رہے ہیں
بکھر گیا جب وفا کا فانوس ، چو ر ہو کر
ہوائے حرص و ہوس نے شب خون مارا اس پر
قریب ہو کر
بھٹک رہے ہیں ، حضور! قدموں سے دور ہو کر
بجھے ہوئے یہ چراغ سارے جلائیں کیسے
حضور! ہم کیسے پاس آئیں
وہ منہ دکھانے کے ہو جو قابل ، کہاں سے لائیں
پہن کے عیش و طرب کے چولے
اُتار کر ہر قبائے منصب
جوان بہنیں جو نا چتی ہیں
جوان بھائی کے روبرو سب
ہماری آنکھوں میں گھو متی ہے
وہ عہد ماضی کی داستانیں
حضور! آپ آئے تھے نہیں جب
اسی بُرائی میں تھے عرب سب
کبھی جو بنت بنی ہے وہ ماں
کبھی بنی جس کی آل میں ہے
شریک رقص و غناء ہے وہ بھی
نہ جانے کس کس خیال میں ہے
میرے وطن میں
میری اُمیدوں کے اس چمن میں
تلاش کرتی ہے آنکھ میری
پکارتا ہے ضمیر میرا
حیائے عثمان۔۔۔ تو کہاں ہے ؟
نبی کا احسان ۔۔۔ تو کہاں ہے ؟
خدا کا فرمان ۔۔۔ تو کہاں ہے ؟
نظامِ قرآن ۔۔۔ تو کہاں ہے َ
حضور میرے وطن میں ڈاکو تمام رہبر
حفاظت جسم و جان اب تو
نہ گھر کے اندر نہ گھر کے باہر
حضور ڈر ہے وہ دن نہ آئے
میرے وطن میں
زکوٰۃ کی حاجتیں ہوں گھر گھر
امیر اتنے امیر بن جائیں
جیسے قارون
غریب اتنے غریب ہوں کہ
زکوٰۃ کی حاجتیں ہوں گھر گھر
حضور وہ دن کبھی نہ آئے
حضور میرے وطن میں مذہب
اُبھر رہا ہے فساد بن کر
تمیز جاتی رہی ہے اس کی
کہ صحن مسجد ہے یا ہے مقتل
جو اس میں مارے گئے بیچارے
وہ امتی آپ کے تھے سارے
کہ جس نے مارا ہے وہ بھی گھر سے چلا تھا اپنے قرآن پڑھ کر
حضور! نوبت یہاں تک آئی کہ اب تو حمد و ثنا بھی
کرتے ہیں آپ کی لوگ نقد لے کر
مدینہ میں آئیں تو کیسے آئیں
وہ منہ دکھانے کے ہو جو قابل ، کہاں سے لائیں
میرے وطن میں ، میری اُمیدوں کے اس چمن میں