ہوں دامن میں انبار بھی گر عمل کے
ہے راحت شہا ! تیرے رستے پہ چل کے
ہے چلنا یہ تلوار پر یُوں سمجھ لو
یہ نعتِ نبی ہے سو لکھنا سنبھل کے
زمانے میں اُس کو ملا کب ٹھکانہ
گیا تیرے در سے جو پہلو بدل کے
بچھڑنا مدینے سے جب یاد آیا
تو آیا ہے منہ کو کلیجہ اُچھل کے
وہ آبِ وضو اُن کا چہرے پہ مَلتے
صحابہؓ محبّت میں آگے نکل کے
حبیبِ خُداکے جو در سے جُڑے ہیں
وہ محبوب ہیں مالکِ لَم یَزَل کے
ملا حُکمِ آذاں بلالِؓ حبش کو
چڑھا سقفِ کعبہ پہ عاشق مچل کے
ڈھلکنے لگے یادِ آقا میں آنسو
دو آنکھوں کے حلقوں سے باہر نکل کے
جلیل اُن کو دُنیا نے سر پر بٹھایا
جئے مُصطفٰے کی جو سیرت میں ڈھل کے