اتنی بلندیوں سے ابھر کر نہیں ملا
اوروں کو آپؐ جیسا پیغمبر نہیں ملا
دیکھا تو ایک بار ستاروں کی آنکھ نے
بارِ دِگر کسی کو وہ منظر نہیں ملا
چہرے بہت ملے ہیں زمیں پر نئے نئے
لیکن حضور جیسا منوّر نہیں ملا
تھک ہار کے وہ بیٹھ گئے پر سمیٹ کے
دونوں جہاں کو آپؐ کا ہم سر نہیں ملا
جتنے بھی آئے کم تھے رسالت مآبؐ سے
ایسا کہیں کسی کو پیمبر نہیں ملا
دنیا کی پھر بجھی نہ کسی سے کبھی پیاس
تشنہ لبوں کو پھر وہ سمندر نہیں ملا
دنیا نے پھر نہ دیکھا وہ مہکا ہوا وجود
دنیا کو پھر وہ حُسنِ معنبر نہیں ملا
اتنے ہوں جاں نثار ، کسی کے زمین پر
دونوں جہاں ہوں جس پہ نچھاور ، نہیں ملا
اک بارآ کے رُوٹھ گیا تھا جہان سے
پھر اِس زمیں پہ کوئی ابوذر نہیں ملا
صدیق سا کسی کا نہیں ہے کوئی رفیق
حسان سا کسی کو سخن وَر نہیں ملا
تکتے ہیں کس اُداس نگاہی سے وہ ہمیں
دامن ملے ہیں جن کو رفوگر نہیں ملا
اک سے ہے ایک بڑھ کے صحابی حضورؐ کا
انجؔم کوئی بھی اُن کے برابر نہیں ملا