اضطراب کی رُت ہے بے کلی کا موسم ہے
شہرِ مصطفےٰ میں پھر حاضری کا موسم ہے
یادِ سرورِ عالم آج پھر چلی آئی
قلب کی فضاؤں میں روشنی کا موسم ہے
یا نبی پلا دیجے اپنی دید کا شربت
میری خشک آنکھوں میں تشنگی کا موسم ہے
ہر گھڑی سخاوت کے پھول کھلتے رہتے ہیں
گلشنِ رسالت میں کب کمی کا موسم ہے
ہے اسے شرف حاصل شاہ کی ولادت کا
سب سے افضل و اعلی بس نبی کا موسم ہے
زائرو ! تم اشکوں سے عرضِ حال کر لینا
مصطفےٰ کے روضے پر خامشی کا موسم ہے
اب شفیقؔ رُت کوئی دوسری نہ آئے گی
حشر تک شہِ دیں کی پیروی کا موسم ہے