جب کرم سرکار کا بالائے بام آجائے گا
زائروں میں دیکھنا میرا بھی نام آجائے گا
دُور طیبہ سے پڑا ہُوں گر کرم کردیں حضور
فاصلہ خود ہی سِمٹ کر پھر دوگام آجائے گا
جی رہا میں اِسی اُمید پر کہ ایک دن
آپ کی سرکار سے میرا پیام آجائے گا
جانے کیسا وقت ہوگا وہ حسِین و دِلرُبا
آپ کے دربار میں جب یہ غلام آجائے گا
زائرِ طیبہ کروگے جب کہ تم جاکر سلام
اِس سے پہلے جانبِ شہ سے سلام آجائے گا
گو کہ عاصی ہُوں مگر کِس کا شۂِ لولاک کا
دونوں عالم میں تعلق بس یہ کام آجائے گا
رحمتیں برسیں گی رب کی میری ارضِ پاک پر
مصطفیٰ کا دیکھنا جب کہ نظام آجائے گا
شاہِ بطحیٰ کی اِطاعت لازمی خود پر کرو
دین و دنیا میں تمہارا احترام آجائے گا
خاک ہوجائے گا مرزا جب حرم کی خاک میں
مِٹ کہ یُوں اہلِ بقا میں اس کا نام آجائے گا