کب تک رہوں مرے خدا کوئے نبی سے دور دور
کب تک گذاروں زندگی، میں زندگی سے دور دور
طیبہ سے دوریاں مجھے برداشت کیسے ہوسکیں
ایک ایک پل برا لگے ان کی گلی سے دور دور
میری حیات و موت ہے عشقِ نبی پہ منحصر
کیسے رہوں تمہی کہو اس عاشقی سے دور دور
رکھتا ہے دل میں بغض جو خلفائے راشدین سے
وہ ہے خبیث رافضی، مولا علی سے دور دور
شیطان کے مرید کی پہچان ایک یہ بھی ہے
درگاہوں سے پرے پرے، غوث و ولی سے دور دور
میری ہر ایک سانس میں ذکرِ شہِ عرب رہے
رکھنا مرے خدا مجھے شر سے بدی سے دور دور
ہم نے تو کچھ کہا نہیں ہم نے تو کچھ کیا نہیں
کچھ لوگ یوں ہی ہو گئے اپنی خوشی سے دور دور
نظمی ہر ایک کام میں مرشد کا اپنے نام لو
ہر کام اس طرح رہے بے برکتی سے دور دور