کبھی اہل دول کے سامنے دامن کو پھیلایا
کبھی اپنی ہوس کو پیکرِ شعر و سخن دے کر
متاع عمر ضائع کی
تری توصیف ہے عمر پشیماں کی نئی منزل
تری یادیں مرے داغ ندامت کو مٹائیں گی
مجھے داغ معاصی ناگ بن کر ڈستے رہتے ہیں
کہ میں نے دین کی قیمت پہ دنیا کا کیا سودا
مگر رشتہ مرا تجھ سے کبھی ٹوٹا نہ ٹوٹے گا
یہ پیمان محبت قوت دل ہے
ترا دست کرم گلہائے مخشش سے مرے دامن کو بھر دے گا
مری توقیر کا ذریعہ ترے دربار سے نسبت
میں خاک خشک ہوں گرمی کا مارا ہوں
ترے لطف و کرم کی بارش پیہم
مجھے سر سبزیوں سے آشنا کر دے