کہوں گا حالِ دل سرکارِ عالم کملی والے سے
ملے گا دل کے ہر گھاؤ کو مرہم کملی والے سے
کلی دل کی کھلے گی گل کھلے گا وصلِ سرور کا
ہرا ہو گا ہمارے دل کا موسم کملی والے سے
سوائے روحِ عالم کے کہاں کوئی ہمارا ہے
لگی ہے آس محمودِ مکرم کملی والے سے
اسی درگاہ کا مہکا ہوا ہر اک دوارہ ہے
معطر ہے حرم عطرِ دو عالم کملی والے سے
وہی ہمدم وہی مولا وہی محکوم کے حامی
سہارا ہے ملا عاصی کو ہر دم کملی والے سے