کیسا انسان یہ پیدا ہوا انسانوں میں
خون توحید کا دوڑا دیا شریانوں میں
گونجا فاران سے جب نعرہ اللہُ احد
کھلبلی مچ گئی دنیا کے صنم خانوں میں
جس مسیحائی کا حامل تھا لعابِ احمد
وہ میسر نہ دوکانوں نہ دواخانوں میں
ارضِ یثرب پہ قدم رکھ دیے آقا نے مرے
نورو نکہت کی بہار آگئی ویرانوں میں
حبِ احمد کا یہ اعجاز تو دیکھو لوگو
ڈھونڈتے پھرتے ہیں ساحل مجھے طوفانوں میں
سچے دل سے ذرا پڑھ لیجیے اک بار درود
اک نئی تازگی آ جائے گی ایمانوں میں
عیدِ میلادِ نبی سے ہے منور بستی
ہاں اندھیرے ہی رہیں غیر کے کاشانوں میں
اے خدا قادری مے خانہ سلامت رکھنا
مئے بغداد چھلکتی رہے پیمانوں میں
سوچیے سوچیے کیسے تھے وہ قدرت والے
جن کے قدموں کے نشاں بن گئے چٹانوں میں
حکمِ آقا پہ اٹھا لائیں اثاثہ اپنا
جذبِ صدیق کہاں اب کے مسلمانوں میں
اس لیے نعت کے میداں میں رکھا میں نے قدم
نام نظمی کا بھی لکھ جائے ثنا خوانوں میں