خَیر کی بھِیک

ایک دِیں اِک خُدا

سب کے رستے جُدا


روک! یہ قافلے

لے کر اُمّت چلے


پرچمِ یَثربی

!یانبی! یا نبی


چِھین لے یہ عقیدوں کی بے رونقی

نیّتوں میں ریا صُورتیں مُتّقی


کھائے دھوکا نظر

حق سے باغی ہیں سَر


پگڑیاں مذہبی

!یا نبی! یا نبی


خَیر کی بِھیک خَیرُالبَشَرْ چاہیے

ظرف قطرہ ہے دریا مگر چاہیے


خُشک ہیں جِسم و جاں

چاٹتی ہے زباں


زخمِ تشنہ لَبی

!یا نبی! یانبی


تیرے کہلائیں غیروں کی بَیعت کریں

رہنما سازشوں کی قیادت کریں


ہر طرف وسوسے

روشنی کو ڈسے


مارِ تِیرہ شَبی

!یا نبی! یا نبی


خواہشیں ہیں پنپنے کی پروان کی

جڑ مُسلمان کاٹے مُسلمان کی


ظرف بے حِس نہ ہوں

ذہن مُفلس نہ ہوں


ہم نہ ٹھہریں غبی

!یا نبی! یا نبی


اپنی راہوں پہ چلنے کی توفیق دے

پھر اس اُمّت کو فارُوق و صِدّیق دے


حُسنِ کردار کی

لَو تِرے پیار کی


ہے دِلوں میں دَبی

!یا نبی! یا نبی

شاعر کا نام :- مظفر وارثی

کتاب کا نام :- بابِ حرم

دیگر کلام

آنکھیں سوال ہیں

مقصُودِ کائِنات

پروردگارِ عَالَم

پیغمبرِ دیں ، ہادی کُل، رحمتِ یَزداں

تو خُود پیام جلی تھا پیامبر تو نہ تھا

اُسوہ رسالت

ہم کو رحمٰن سے جو ملا، اس محمدؐ کی کیا بات ہے

سفر مدینے کا کچھ ایسا مرحلہ تو نہیں

نعت میں کیسے کہوں ان کی رضا سے پہلے

کہاں میں کہاں مدحِ ذاتِ گرامی