خَلق کیوں اُس کی نہ گرویدہ ہو
وہ جو خالق کا پسندیدہ ہو
ہو گیا نطق پھر آمادہ نعت
اب تو شاد اے دلِ غم دیدہ ہو
اُس پہ ہوتی ہے عنایت کیا کیا
اُمّتی گر کوئی رنجیدہ ہو
شانہ حکمتِ شہؐ سلجھائے
کاکلِ زیست جو ژولیدہ ہو
آرزو ہے کہ نہالِ افکار
فیضِ سرکارؐ سے بالیدہ ہو
غم ِ دوراں اُسے کیا یاد آئے
یادِ خواجہؐ میں جو غلطیدہ ہو
دیکھیے کب میں چلوں سُوئے حجاز
سرخرو کب طلبِ دیدہ ہو
تائبؔ آسودہ رحمت ہے وہ فرد
خاکِ طیبہ میں جو خوابیدہ ہو