خیر مقدم کو نکل آیا ہے اشکوں کاجلوس
آ گئی یادِ شہنشاہِ مدینہ دل میں
میں سبز گنبد کا دھیان کرلوں تو نعت لکھوں
زمین کو آسمان کر لوں تو نعت لکھوں
نبی کے شایانِ شان کر لوں تو نعت لکھوں
قلم کو میں عطر دان کرلوں تو نعت لکھوں
میں فنِّ شعروسخن کا ادنیٰ سا طفلِ مکتب
ذرا سا فن کو جوان کر لوں تو نعت لکھوں
درودِ اقدس کے پھول اُن پر نثار کر کے
معطر اپنی زبان کر لوں تو نعت لکھوں
بھری ہے خطروں سے راہِ نعتِ رسولِ اکرم
نبی سے عہدِ امان کر لوں تو نعت لکھوں
گلاب جل کی پلا کے اس کو میں روشنائی
قلم کی گیلی زبان کر لوں تو نعت لکھوں
فضائے نعتِ نبی بلند و وسیع تر ہے
شفیقؔ ویسی اڑان کر لوں تو نعت لکھوں