خود کو یونہی تو نہیں محوِ سفر رکھا ہوا

خود کو یونہی تو نہیں محوِ سفر رکھا ہوا

سبز گنبد میں نے ہے پیشِ نظر رکھا ہوا


بس یہی اک سلسلہ ہے معتبر رکھا ہوا

دامنِ خیر الوریٰ ہے تھام کر رکھا ہوا


اس لیے تازہ دم رہتا ہوں ہر دم دوستو!

ذکر ان کا لب پہ ہے شام و سحر رکھا ہوا


منزلیں خود راستہ میرا بھلا دیکھیں نہ کیوں؟

ان کی مدحت کو ہے جب رختِ سفر رکھا ہوا


بخشوانی ہوں خطائیں تو چلے جایا کرو

عاصیوں کے واسطے ہے رب نے در رکھا ہوا


دور کر دیتی ہے سارے مرض، ملتی ہے شفا

خاکِ طیبہ میں اثر ہے اس قدر رکھا ہوا


روح تن سے اس گھڑی اے کاش! ہو جائے جدا

آپ کی دہلیز پر ہو جب یہ سر رکھا ہوا


دو جہاں میں ہیں رسولِ ہاشمی حامی ترے

حوصلہ رکھ، دل میں آصف کیوں ہے ڈر رکھا ہوا

شاعر کا نام :- محمد آصف قادری

کتاب کا نام :- مہرِحرا

دیگر کلام

کیا شان ہے کیا رتبہ ان کا، سبحان اللہ سبحان اللہ

ممتاز ہیں دنیا میں اسی ایک سبب سے

محبوبِ رب کہیں شہِ والا کہ کیا کہیں

مجھ کو بھی ملے اذنِ سفر سیدِ سادات

حرا سے پھوٹی پہلی روشنی ہے

ہے سکونِ قلب کا سامان نعتِ مصطفی

جس نے سرکارِ دوعالم کا زمانہ دیکھا

رونقِ دو جہاں آپ ہیں

صد شکر کہ سرکار کا میں مدح سرا ہوں

مجھ پہ سرکارِدوعالم کے ہیں احساں کتنے