خدا گواہ کبھی محترم نہیں ہوتا
وہ دل کہ جس پہ وہ نقشِ قدم نہیں ہوتا
زہے نصیب کہ مجھ پہ نظر ہے آقاؐ کی
ہر ایک قلب تو شایانِ غم نہیں ہوتا
درِ حضورؐ پہ گریہ ہی کام آتا ہے
زباں کو حوصلۂ عرضِ غم نہیں ہوتا
جو دِل دیا ہے تو اُنؐ کی طلب بھی دے یا رب
طلب نہ ہو تو کرم بھی کرم نہیں ہوتا
وہ در عجیب ہے اس در سے جو بھی ملتا ہے
کسی کی وسعتِ داماں سے کم نہیں ہوتا
مرے حُضورؐ کا مسجُود ہے مرا مسجُود
سرِ نیاز کہیں اور خم نہیں ہوتا
وہ نام سینہ بہ سینہ سفر میں ہے اب بھی
یہ فیض وہ ہے جو بخشش سے کم نہیں ہوتا
حنیفؔ اُنؐ کے غلاموں کو ناز ہے اُنؐ پر
غلام ایسا کہیں محترم نہیں ہوتا