خورشید جِس کے نُور کا ایک اقتباس ہَے
اُس کا جمال میری نظر کا لباس ہَے
دستِ کرم کِسی نے مِرے مُنہ پہ رکھ دیا
مَیں کہنا چاہتا تھا مرا دل اُداس ہے
مِلتا ہے روز تیرے وسیلے سے ہم کو رزق
جو معترف نہیں ہے نمک ناشناس ہے
دُنیا نہ دے مُجھے مِرے حصّے کی نعمتیں
جس میں تری تڑپ ہے وہ دل میرے پاس ہے
مَیں قُرب چاہتا ہُوں، مرا پوچھنا ہی کیا
لیکن تری رضا ہے تو فرقت بھی راس ہے
مہکی ہُوئی ہے کوچہ و بازار کی ہَوا
محسوس ہو رہا ہے کوئی آس پاس ہے
حضرت مَیں التماس کروں بھی تو کیا کروں
حضرت مرا تمام وجُود التماس ہے
کیسے بُجھے گی جُرعۂ دیدار کے سِوا
یہ دِل کی تشنگی ہے یہ آنکھوں کی پیاس ہے
عاصؔی کو چشمِ لُطف سے آسی بنادیا
اُس ذات پاک نے جو غریبوں کی آس ہے