کس طرح چاند نگر تک پہنچوں
آپ بلوائیں تو در تک پہنچوں
چومتے چومتے قدموں کے نقوش
عرش کی راہ گزر تک پہنچوں
شبِ غم سے کسی صورت نکلوں
اور دامانِ سحر تک پہنچوں
میں کہ غربت کے سفر میں ہوں مدام
اک اشارہ ہو تو گھر تک پہنچوں
میں کہ ہوں آہِ پریشاں آقا
اذن ہو بابِ اثر تک پہنچوں
میں کہ آنسو ہوں مگر خاک کا رزق
کاش معراجِ نظر تک پہنچوں
ہو کے تجسیمِ فغانِ آدم
روضہ خیرِ بشرؐ تک پہنچوں
اک پتھر ہی سہی میرا وجود
پھر بھی اس آئنہ گر تک پہنچوں
ڈھانپ لے عیب مرے خاکِ بقیع
اپنے انجامِ سفر تک پہنچوں