کوئی عارف کوئی صوفی نہیں ہے
کوئی رُومی کوئی رازی نہیں ہے
ابوذر کی طرح پلکوں سے اپنی
تری چوکھٹ اگر چُومی نہیں ہے
اگرچہ ایک سے ہے ایک بڑھ کر
کوئی خوشبو ترے جیسی نہیں ہے
وہ جنت کے نہیں قابل کہ جس کی
زباں صلِّ علی کہتی نہیں ہے
جہاں پر ہو تری جلوہ نمائی
کسی کی شمع واں جلتی نہیں ہے
میں خواندہ ہوکے بھی ناخواندوں جیسا
تُو امّی ہو کے بھی اُمّی نہیں ہے
ترے در پر نہ دوں جب تک میں دستک
سوالوں کی گِرہ کھلتی نہیں ہے
مرے کس کام کی انجؔم وہ خوشبو
جو مدنی کے مدینے کی نہیں ہے