کچھ نہیں مانگتا میں مولا تیری ہستی سے

کچھ نہیں مانگتا میں مولا تیری ہستی سے

میری آنکھوں کو مدینے کا نظارا دے دے


کب تمنّا کوئی میں اِس کے سوا کرتا ہوں

میں تو دن رات یہ مولا سے دعا کرتا ہوں


گُزری طَیبہ میں جو زندگی ہے دوبارہ دےدے

نام سرکار پہ بِک جانے کو جی چاہتا ہے


پھِر نہیں فکر کہ ہاتھوں کیا آتا ہے

تیر ی مرضی سے نَفع دے یا خسارا دےدے


میں نہیں کہتا یہ ہر صاحبِ نَظر کہتا ہے

فلک پہ آئے ہوئے بات قَمر کہتا ہے


پھِر سے اقا مُجھے اُنگلی کا اِشارہ دےدے

اپنا جنت میں وہ جس وقت ٹھکانہ ہوگا


پا کے جنت کو بھی لب پر یہ ترانہ ہوگا

مولا جو طیبہ میں زندگی تھی دوبارہ دےدے


یہ جہاں اُس کو حقیقت میں پھر نہ رولے گا

مجھ کو سمجھاؤ بھلا کیسے پھر وہ ڈولے گا


جس کو حسنین کا خود نانا سہارا دےدے

آئے ہیں جتنے دیوانے تیری چاہت لے کے


بیٹھے ہیں دل میں یہ آقا تری اُلفت لے کے

دے دے دیدار انہیں اب تو خدارا دے دے


اپنی پلکوں کو ہے راہوں میں بچھایا میں نے

اپنی کٹیا کو بھی دلہن ہے بنا یا میں نے


میری ڈوبی ہوئی نیا کو کنارہ دےدے

اپنا دل اپنا جگر اپنی یہ آنکھیں حاکم


اپنی یہ جاں ارے اپنی یہ سانسیں حاکم

جتنا سامان ہے سرکار کو سارا دےدے

شاعر کا نام :- احمد علی حاکم

کتاب کا نام :- کلامِ حاکم

دیگر کلام

زُلفِ سرکار سے جب چہرہ نکلتا ہوگا

اتنا کافی ہے زندگی کے لئے

جس کو درِ رسول کی قُربت نہیں ملی

کی دسّاں میں شان پیارے زُلفاں دے

و ہ آگئے ہیں کریم بنکر نصیب سب کے سنورے گئے ہیں

کُوئے نبی سے آنہ سکے ہم راحت ہی کچھ ایسی تھی

اوہ آجاون میرے ویہڑے ایہو منگدا دُعا بیٹھا

زندگی میں گدا ہو کے بھی سُلطان رہا ہوں

سارے سوہنیاں تو سوہنا

وکّھ نے رُتبے میرے نبی دے