لطف ان کا عام ہو ہی جائے گا

لطف ان کا عام ہو ہی جائے گا

شاد ہر ناکام ہو ہی جائے گا


جان دے دو وعدۂ دیدار پر

نقد اپنا دام ہو ہی جائے گا


شاد ہے فردوس یعنی ایک دن

قسمتِ خدام ہو ہی جائے گا


یاد رہ جائیں گی یہ بے باکیاں

نفس تو تو رام ہو ہی جائے گا


بے نشانوں کا نشاں مِٹتا نہیں

مٹتے مٹتے نام ہو ہی جائے گا


یادِ گیسو ذکرِ حق ہے آہ کر

دل میں پیدالام ہو ہی جائے گا


ایک دن آواز بدلیں گے یہ ساز

چہچہا کہرام ہو ہی جائے گا


سائلو! دامن سخی کا تھام لو

کچھ نہ کچھ انعام ہو ہی جائے گا


!یاد ابرو کر کے تڑپو بلبلو

ٹکڑے ٹکڑے دام ہو ہی جائے گا


مفلِسو! اُن کی گلی میں جا پڑو

باغِ خلد اکرام ہو ہی جائے گا


گر یونہی رحمت کی تاویلیں رہیں

مدح ہر الزام ہو ہی جائے گا


بادہ خواری کا سماں بندھنے تو دو

شیخ دُرد آشام ہو ہی جائے گا


غم تو ان کو بھول کر لپٹا ہے یوں

جیسے اپنا کام ہو ہی جائے گا


مِٹ! کہ گر یونہی رہا قرضِ حیات

جان کا نیلام ہو ہی جائے گا


عاقلو! ان کی نظر سیدھی رہے

بَوروں کا بھی کام ہو ہی جائے گا


اب تو لائی ہے شفاعت عفو پر

بڑھتے بڑھتے عام ہو ہی جائے گا


اے رضاؔ ہر کام کا اِک وقت ہے

دل کو بھی آرام ہو ہی جائے گا

شاعر کا نام :- احمد رضا خان بریلوی

کتاب کا نام :- حدائقِ بخشش

دیگر کلام

کیا ہی ذوق افزا شفاعت ہے تمہاری واہ واہ

کیا مہکتے ہیں مہکنے والے

کِس کے جلوہ کی جھلک ہے یہ اُجالا کیا ہے

کعبہ کے بَدرالدُّجی تم پہ کروروں درود

گزرے جس راہ سے وہ سیِّدِ والا ہو کر

محمد مظہرِ کامل ہے حق کی شانِ عزّت کا

مومن وہ ہے جو اُن کی عزّت پہ مَرے دِل سے

مصطفٰی خیرُالْوَرٰے ہو

مژدۂ رحمت حق ہم کو سنانے والے

نہ آسمان کو یوں سرکَشیدہ ہونا تھا