مدینے کی طرف میں دوڑ کر جاتا ہوں جانے کیوں
میں اپنے آپ سے آگے، گزر جاتا ہوں جانے کیوں
بڑی تیزی سے چلتا ہوں میں تھوڑی دیر تک لیکن
پھر اس کے بعد خود ہی میں ٹھہر جاتا ہوں جانے کیوں
درِ رحمت پہ دستک جا کے دوں، ہر بار سوچا ہے
قدم آگے بڑھاتا ہوں، تو ڈر جاتا ہوں جانے کیوں
ہزاروں مرتبہ کرتا ہوں، دن میں خود کو میں یکجا
ہزاروں مرتبہ دن میں، بکھر جاتا ہوں جانے کیوں
بھلا دیتا ہوں میں، ہر نام کو اُسؐ نام کی خاطر
میں اپنے ذہن سے خود بھی، اُتر جاتا ہوں جانے کیوں
عقیدت کے دیارِ نُور سے نکلوں، تو میں انجؔم
پریشانی کے جنگل میں، اُتر جاتا ہوں جانے کیوں