میلادِ محمد جو منانے میں لگے ہیں

میلادِ محمد جو منانے میں لگے ہیں

ہم کو وہ بھلے لوگ زمانے میں لگے ہیں


تہذیب و محبت کے اُخوت کے ہیں خُوگر

سرکار کا جو ذکر سُنانے میں لگے ہیں


میلادِ نبی کرتے ہیں اخلاص سے جو بھی

اسلام کی شوکت وہ بڑھانے میں لگے ہیں


مِٹ جائیں گے سب نام ونِشاں اُن کے جہاں سے

سرکار کا جو ذِکر مِٹانے میں لگے ہیں


ذکرِ شہِ کونین تو بڑھتا ہی رہے گا

گھاٹے میں ہیں جو اس کو گھٹانے میں لگے ہیں


کہتے ہیں کہ میلاد کا تم لاؤ حوالہ

اعدائے نبی حِیلے بہانے میں لگے ہیں


نورِ شہِ بطحیٰ سے لحد ہوگی مُنوّر

جو دِیپ مسرّت کے جلانے میں لگے ہیں


دل سے جو پُکارا ہے کبھی سرورِ دِیں کو

لمحے بھی نہیں آپ کے آنے میں لگے ہیں


کیا بات ہے عُشاقِ شہِ ارض و سما کی

بے دیکھے یہ سر اپنا کٹانے میں لگے ہیں


مرزا نہ کبھی یاد کو تم اُن کی بُھلانا

وہ ناز جو اُمت کے اُٹھانے میں لگے ہیں

شاعر کا نام :- مرزا جاوید بیگ عطاری

کتاب کا نام :- حروفِ نُور

دیگر کلام

تاجدارِ انبیاء خیرالوریٰ

آمدِ سرکار پر ہے جا بجا آوازِ نعت

تاجدارِ حرم اے شہِ انس و جاں شاہِ کون و مکاں

آمدِ شہ پر سجے ہیں مشرقین و مغربین

اگر دل میں شہنشاہِ مدینہ کی محبت ہے

محبوبِ خدا سرورِ ذی شان درخشاں

جو بزمِ لامکاں پہنچا نبی میرا نبی میرا

سرورِ ہر دوسرا شاہِ اُمم

مرحبا کیا شان کیا رُتبہ ترا

جلوہ گر کونین میں آقا کی طلعت ہو چکی