مرا دل جب کبھی درد و الم سے کانپ اٹھتا ہے
میں نام آقا کا لے لیتا ہوں سب ڈر کانپ اٹھتا ہے
کرم کی اک نظر جب میرے آقا ڈال دیتے ہیں
عمر کی دشمنی کا سارا تیور کانپ اٹھتا ہے
حرا پر وہ تخنّث کی مبارک خلوتیں واللہ
تصور کرتے ہی ایک ایک پتھر کانپ اٹھتا ہے
بتوں کے شہر میں اک بت شکن کی ہمتِ عالی
جو ہو عزمِ براہیمی تو آذر کانپ اٹھتا ہے
زمیں پر گر گئے صبحِ ولادت چودہ کنگورے
نبی کے آتے ہی کسریٰ کا سب گھر کانپ اٹھتا ہے
ہٹا دیتے ہیں آقا جب بھی زلفیں اپنے چہرے سے
ضیا رخسار کی پاتے ہی خاور کانپ اٹھتا ہے
وہ جن کو کہتے ہیں شیرِ خدا مشکل کشا حیدر
علی کا نام آتا ہے تو خیبر کانپ اٹھتا ہے
صراط اوپر غلامِ مصطفی چلتا ہے اترا کر
تو اس کے نور سے دوزخ کا جوہر کانپ اٹھتا ہے
گنہگاروں کو نظمی شافعِ محشر بچاتے ہیں
وہ رحمت بن کے آتے ہیں تو محشر کانپ اٹھتا ہے