مری بے بسی پہ کرم کرو تمہیں واسطہ ہے حضُورؐ کا
مُجھے اُس دیار میں لے چلو جہاں ذرّہ ذرّہ ہے نُور کا
مری زندگی ہمہ بندگی یہ عطائے ربِّ کریم ہے
مرا قلب ذکر سے جاگ اُٹھا یہ کرم ہے مجھ پہ حضُور کا
وہ چراغِ گنبدِ کاخ و کو‘ وہ حرم کی آخری آبرُو
وہی نقشِ دستِ کلیم ہیں ‘ وُہی نُور جلوۂ طُور کا
وہ جمالِ حق کا ظہُور ہیں ‘ وہ جبھی تو نُور ہی نُور ہیں
یہ بجا تو اتنا بتایئے کہیں سایہ ہوتا ہے نُور کا
میں فدائے مظہرِ ذات ہوں‘ میں فنائے حُسنِ صفات ہوں
مری رُوح یاد حضوؐر کی ‘ مرا قلب ذکر حضورؐ کا
یہ بڑا کرم ہے کہ جسم و جاں ہیں پناہ میں شہ ؐ دیں پنہ
مجھے حشر میں بھی اماں ملے مجھے ڈر ہے یومِ نشُور کا
میں مطیع سرورِؐ دیں ہُوا تو خدا کے اور قریں ہُوا
یہ بشر کا اوجِ کمال ہے یہ سفر ہے قُرب سے دُور کا
مری بے خودی کو کہاں خبر اسے چشمِ تر ہی سے پُوچھئے
کہ حنیفؔ اُس درِ پاک پر جو سماں تھا کیف و سروُر کا