مری مژگاں نے پیے جام مرے اشکوں کے
عظمت عشق کو مٹی میں ملانے نہ دیا
ضبط غم پاسِ ادب کے لیے لازم رکھا
جی بھر آیا تھا مگر اشک بہانے نہ دیا
عشق زندہ ہے اسی آتشِ فرقت کے سبب
خود جلے خوب مگر اس کو بجھانے نہ دیا
آئے جس وقت نظر نقشِ کفِ پائے رسول
میں نے بھی وقت کو پھر ہاتھ سے جانے نہ دیا
جب سنا شاہِ اُمم سوئے گنہ گار چلے
شوقِ دیدار نے عصیاں کو چھپانے نہ دیا
میں تو لوٹ آیا مدینے کی زیارت سے ادیبؔ
دل کو واپس مرے اُس شہر نے آنے نہ دیا